Orhan

Add To collaction

پچھتاوائے انتقام

پچھتاوائے انتقام
 از نشال عزیز 
قسط نمبر1

اے۔۔۔اب اس کَلی کو اُٹھالے۔۔۔
بھاری لوفرانہ آواز پر ایک موٹا حبشی آدمی ان دونوں کے قریب آیا۔۔وہ بچہ نامحسوس انداز میں اپنی بڑی بہن سے اور چپک گیا۔
نہیں۔۔۔پلیز نہیں۔۔
اسکی بہن روتے ہوئے ان لوگوں کو بول کر اسے خود میں بھینچ گئی۔اپنی بہن کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ اس نے واضح محسوس کی تھی۔
تبھی پیچھے سے اس بچے کو دو اور بھاری بھرکم آدمیوں نے دبوچ لیا۔اور سامنے سے آتے اس موٹے آدمی نے اسکی بہن کو ایک بازو سے جکڑ لیا۔
اپیا کو چھوڑدو۔۔۔چھوڑو میری اپیا کو۔۔۔
وہ تیرا سالہ بچہ ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے اپنا آپ ان لوگوں سے چھڑوارہا تھا۔۔۔جبکہ اب وہ آدمی اسکی بہن کو الٹا اپنی کمر پر لٹکائے گھر کے اندر جہاں کچھ دیر پہلے اسکی ماں کو لے کر گئے تھے وہی لے جارہا تھا۔اسکی بہن مسلسل چیخ کر روتے ہوئے ان لوگوں سے بچنے کی بھیک مانگ رہی تھی۔۔۔مگر ان حیوانوں کو زرا پرواہ نہ تھی۔۔۔بلکہ وہ لوگ ان دونوں کی حالت پر قہقہہ لگا کر ہنس رہے تھے۔۔
تقریباً تھوڑی ہی دیر میں اسکی بہن کی دلخراش چیخ گھر کے اندر بلند ہوئی۔۔اور وہ تیرہ سالہ ذہین بچہ ناسمجھ نہ تھا جو اندر اسکی ماں اور بہن کے ساتھ ہوتے نازیبا کام کا علم نہ رکھتا ہو۔۔۔
اپیاااا۔۔۔۔امییی۔۔۔۔چھوڑدو میری اپیا کو۔۔۔
وہ غصے میں پاگلوں کی طرح چیخ کر اپنا ہاتھ ان دونوں آدمیوں سے چھڑوانے لگا جو اسکی تڑپتی حالت سے محضوظ ہورہے تھے۔۔۔فضا میں مسلسل دل چیرنے والی چیخ،رونے اور خباثت بھری ہنسی کی آوازیں یک بیک گونج رہی تھیں۔۔
کافی دیر بعد جب گھر کے اندر خاموشی چھائی تو اس بچے نے حیرت سے گھر کی طرف دیکھا جہاں سے اب پانچ نشے میں دُھت آدمی خباثت سے ہنستے ہوئے نکل رہے تھے۔۔۔
چل بھئی۔۔۔اب آگے کا کام جلدی کر۔۔
وہی بھاری آواز اس بچے کے کانوں سے ٹکرائی۔۔اس بار اس نے گردن موڑ کر اس بھاری آواز والے آدمی کی شکل دیکھنا چاہی مگر اس آدمی کا رخ دوسری طرف ہونے کی وجہ سے وہ صرف اسکا بازو ہی دیکھ پایا۔۔۔اس آدمی کے ہاتھ پر کلائیوں کے سائیڈ پر چھوٹا سا انوکھے انداز میں شیر کا ٹیٹو بنا ہوا تھا۔۔۔اس بچے نے اپنی سرخ رنگ آنکھیں اس ٹیٹو کے ڈیزائن پر گاڑیں۔۔۔اور اس ٹیٹو کا ایک ایک نقش غور سے دیکھنے لگا۔
تبھی ایک تیز بدبو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی۔۔۔اس بچے نے پلٹ کر دیکھا تو آنکھیں تقریباً ابلنے لگی تھیں اسکی۔۔۔منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔۔۔اسکا گھر جس میں کبھی وہ،اسکی بیوہ ماں اور ایک بڑی بہن ہنسی خوشی رہتے تھے۔۔وہ گھر اب ان حیوانوں نے مِل کر جلا ڈالا تھا۔۔۔اور ابھی اسی میں اسکی ماں اور بڑی بہن ان حیوانوں کی درندگی کا نشانہ بنی تھیں۔
امییی۔۔۔۔
اپیااااا۔۔۔۔
وہ بچہ حلق کے بل چلایا تھا
جھٹکے سے آنکھ کھولتا ہوا وہ اٹھا تھا۔۔۔۔پسینے سے پورا بدن شرابور ہورہا تھا۔۔۔۔کچھ پل اسے حال میں واپس آنے میں لگے۔۔۔۔اس نے گردن گھوما کر ہر طرف دیکھا۔۔۔۔اب منظر بدلا ہوا تھا۔۔وہ اپنے جہازی سائز بیڈ پر بیٹھا تھا۔۔۔صبح کی ہلکی ہلکی دھوپ کمرے کی بڑی سی کھڑکی سے چھن کر اندر آرہی تھی۔۔۔اے سی فُل آن تھا مگر اسکے باوجود اسکا آدھا برہنہ بدن پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔۔۔ایک بار پھر وہی خواب۔۔۔۔انیس سال ہوگئے تھے اس واقعے کو پر ابھی تک اسکے دماغ میں جیسے سب کچھ تازہ تھا۔۔۔بس فرق اتنا تھا کہ اس وقت وہ ایک کم ہمت سا تیرہ سالہ بچہ تھا اور اب وہ ایک مضبوط جسامت کا مالک،بتیس سال کا طاقتور مرد تھا۔۔۔جسے ہرانا یا پیچھے کرنا کسی کے لیے بھی ناممکن تھا مگر کون جانے اس طاقتور مرد کے اندر پچھلے انیس سالوں سے ایک آگ جل رہی تھی۔۔۔۔انتقام کی آگ۔۔۔جس سے وہ ہر راستے میں آنے والے کو جلا دینا چاہتا تھا اور اپنے مجرم سے انتہائی دردناک انتقام لینا چاہتا تھا۔۔۔اس واقعے کو سوچتے ہی اسکی کالی آنکھیں مکمل خون آلود ہوئیں تھیں۔۔۔۔ان آنکھوں میں دیکھ کر ہی اسکی درندگی کا پتا لگایا جاسکتا تھا۔۔۔اس نے گردن گھوما کر اپنے کسرتی بازو پر بنے شیر کی شکل کے ٹیٹو کو دیکھا۔۔۔ایک زہریلی پُر نفرت مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا۔
اب کی بار اس نے ایک نظر دیوار پر نسب گھڑی کو دیکھا آج اسے کمشنر کے دیے گئے مشن پر نکلنا تھا جس کی ٹیم آلریڈی تیار کر کے اسے دی گئی تھی۔۔۔بس جہاں وہ ٹیم تھی اسے اسی جگہ پر جانا تھا۔۔۔پر کچھ کام نپٹانے کے بعد۔۔۔اپنی سوچ جھٹک کر وہ اٹھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے وقت جاتی گرمیوں کی وجہ سے ماحول کافی خنک تھا۔۔۔۔آبادی کے علاقے سے تھوڑا دور سنسان جگہ پر ایک بڑی سی شیشے کے مانند چمکتی ہوئی عمارت بنی ہوئی تھی۔۔۔وہ عمارت جتنی باہر سے خوبصورت تھی اس سے کئی زیادہ اسکا اندرونی حصہ اسے بنانے والے شاہکار کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔پر خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بہت خفیہ جگہ بھی تھی۔۔۔عمارت کے باہر کافی لمبے حصے تک چاروں طرف ایک باؤنڈری بنی ہوئی تھی۔۔۔اور اس باؤنڈری کے اندر کسی عام انسان کا آنا تو کیا بھٹکنا بھی ناممکن تھا کیونکہ باؤنڈری سے لے کر اندر کے ہر ایک حصے پر ایک مسلحہ گارڈ کھڑا تھا۔۔۔عمارت کے اندر بیچوں بیچ ایک وسیع و عریض ہال تھا۔۔۔اس ہال کے سائیڈ پر کونے کی طرف ایک بڑا سا کمرا تھا۔۔۔کمرے میں ایک بڑی سکرین لگی تھی جس پر شہر کی کئی اہم جگہوں کی فوٹیج چل رہی تھی۔۔۔۔سکرین کے بلکل سامنے دس بارہ سِول ڈریس میں افسران بیٹھے تھے جو اپنے کام میں مشغول تھے۔
ہمارے گروپ کے کچھ اصول ہیں۔۔۔ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے والے کو ہی زیادہ سے زیادہ سیلری دی جائے گی۔۔۔اور۔۔۔۔
ان سبھی افسران کے پیچھے کھڑا میجر تیمور جو مسلسل دائیں بائیں چکر کاٹتے ہوئے بول رہا تھا اپنی باتوں کو اگنور ہوتا دیکھ اچانک رکا۔
ایکسکیوزمی۔۔۔میں کچھ بول رہا ہوں۔۔
اسکی سخت آواز پر بھی کسی نے ویلیو نہ دی اور یونہی اپنے کام میں مگن رہے تو وہ تپ ہی گیا۔
بہت ہوا۔۔۔بہت ہوا۔۔۔میں تم لوگوں کی گستاخیاں برداشت کرتا ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ تم لوگ مجھے یوں اگنور کرو۔۔۔یاد رکھو میں تم لوگوں کا باس ہوں اور باسسسس۔۔۔
وہ آواز کو اور سخت بنا کر بولتے ہوئے پیچھے رکھی چئیر پر بیٹھنے لگا مگر اگلے ہی پل وہ نیچے گرا تھا۔۔اسکی چیخ پر سب جو بظاہر میجر تیمور کو تنگ کرنے کے غرض اسے اگنور کر رہے تھے۔۔یک بیک پلٹے پر سامنے کھڑے دراز قد کسرتی جسم کے شخص کو دیکھ کر جلدی سے کھڑے ہوئے۔۔۔اور ایک ساتھ سیلوٹ کیا۔
کس کی اتنی ہمت کے میری۔۔میجر تیمور کی چئیر ہٹائی۔۔میں چھوڑ۔۔۔
تیمور کے باقی الفاظ گنگ ہوگئے۔۔۔اس نے آہستے سے کھڑے ہوتے ہوئے اس دیو قامت پراسرار شخص کو نیچے سے اوپر تک دیکھا،بلیک پینٹ کوٹ میں بلیک ہی کیپ لگائے وہ اسے کافی وحشت میں مبتلا کرگیا۔۔۔اس شخص کو زیادہ پراسرار اسکے چہرے پر لگا سفید ماسک بنارہا تھا۔تیمور بغور اسکا حلیہ دیکھ رہا تھا۔۔۔کوشش کے باوجود ماسک کی وجہ سے اسکا چہرہ دیکھنا ناکام ثابت ہوا۔۔۔تبھی اسکی نظر اس پراسرار شخص کے کوٹ پر پڑی جہاں جیب کے سائیڈ پر ایک مخصوص بیج لگا تھا۔
سر!
وہ جھٹکے سے ایک قدم پیچھے ہٹتا ہوا بولا
آپ؟
"Z"....Mr "Z"
تیمور کی بات کاٹ کر اسنے مخصوص بھاری آواز میں اپنا انتہائی مختصر تعارف کروایا۔۔۔اسکے لہجے میں حد درجہ سرد تاثر محسوس کر کے تیمور نے تھوک نگلا
کتنا عجیب نام ہے نا "Z"۔۔۔۔کس نے رکھا تھا سر۔۔۔
اس انسان کو دیکھ کر جو وحشت اسے ہورہی تھی اسے دور کرنے کے غرض سے وہ فرینکلی بولا مگر اگلے ہی لمحے اس شخص نے جب نظر اٹھاکر تیمور کو دیکھا تو اسکی گھٹا ٹوپ کالی آنکھیں میں برف کے جیسا سرد پن تیمور کو نگاہ پھیرنے پر مجبور کرگیا وہ خود کو نارمل ظاہر کرنے کے لیے سیٹی بجاتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا مگر فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی چپ ہوا جب اس پراسرار شخص کی گھنی آئبرو پر بل پڑے۔
سوری سر۔۔
وہ سر جھکائے بولا پیچھے سے باقی افسران کی دبی دبی ہنسی سن کر تیمور کا خون کھولا تبھی تیمور کا فون بجا
ایکسکیوزمی سر۔۔
وہ ہلکی آواز میں بولتا ہوا کمرے سے باہر آیا کمشنر صاحب کی کال تھی۔
ہیلو سر۔۔۔
تیمور نے کمشنر زاہد کو سلام کیا
ہاں تیمور تمہیں بتایا تھا نا میں نے صبح کہ ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا ہے میں نے تمہاری ٹیم کے لیے۔۔۔
کمشنر نے بولنا شروع کیا
جی سر معلوم ہے۔۔۔اور آپکی عنایت سے وہ ابھی ہم پر مسلط ہوئے ہیں۔۔سر آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ واقعی آپ نے جسے بھیجا ہے وہ انسان ہے نا۔۔۔کیونکہ مجھے تو وہ کوئی عجیب ہی مخلوق لگ رہے ہیں۔۔۔جسٹ لائق کوئی بھوت پریت۔۔۔
تیمور رازدارانہ لہجے میں نان سٹاپ بولے جارہا تھا
یہی۔۔۔یہی تمہاری حرکتیں ہیں جو تم ترقی نہیں کر پارہے ہو تیمور۔۔۔ہر کسی کو جج کرنے لگتے ہو۔۔۔بیٹا ایک فری ایڈوائز دوں گا کہ اپنی یہ جج منٹ اسکے سامنے نہیں کرنا کیونکہ وہ اوپر سے جتنا خاموش دکھتا ہے اندر سے اتنا ہی بڑا راکشس ہے۔۔۔تو زرا سنبھل کر۔۔۔اور ہاں میں نے اسے ہی کیوں بھیجا ہے وہ اس لیے کہ صرف وہ واحد ہی ہے میری نظر میں جو اس مِشن کو کمپلیٹ کرسکتا ہے۔۔۔اسے بِیٹ کرنا آسان نہیں۔۔
کمشنر کی پوری باتیں سننے کے بعد تیمور نے ایک لمبی جمائی لی۔
آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے سر۔۔۔
وہ اور جمائی روکتا ہوا بولا پھر فون رکھ کر اندر چلاگیا۔دوسری طرف کمشنر زاہد تپ کے رہ گئے اس میجر سے۔۔۔۔جو صرف نام کا میجر تھا۔۔۔پر عقل ایک پیسے کی نہ تھی اس میں۔
پتا نہیں۔۔۔آئی کیو ٹیسٹ کیسے پاس کرگیا تھا یہ۔۔۔
وہ غصے میں بڑبڑائے
سر تو آپ بتائیں چائے لیں گے یا کافی۔۔
اندر آکر تیمور نے لہجہ فارمل بناتے ہوئے اس شخص سے پوچھا جس پر وہ ایک نظر تیمور کو دیکھ کر اسی چئیر پر بیٹھ گیا جو اس نے تیمور کے پیچھے سے کھینچی تھی۔
کام کی بات کرو۔۔۔
اسنے سرد لہجے میں کہا ایک بار پھر تیمور کی بےعزتی پر سبھی افسران کے چہروں پر مسکراہٹ پھیلی۔۔تیمور نے غصے میں ان لوگوں کو گھورا۔
سر کام۔۔۔ہاں۔۔۔وہ سر ہمارا مِشن بس کلئیر ہے۔۔۔اس سکرین میں ابھی ملک کی کئی نامور جگہوں کی ویڈیوز چل رہی ہے۔۔جس میں سے بیرون ممالک۔۔۔
ڈرگز سمیت لڑکیاں بھی فروخت ہوتی ہیں۔۔۔آگے بولو۔۔
تیمور کی بات کاٹتے ہوئے وہ بولا
تیمور نے چونک کر اسے دیکھا تو کیا اسے پہلے سے سب معلوم ہے
ہاں تو سر ان لڑکیوں کو جو گروہ سپلائی کررہا ہے وہ ایک انسان کی سربراہی میں کررہا ہے۔۔۔جو آج کل کے نامور بزنس مین کے نام سے بہت معزز شخصیت مانے جاتے ہیں۔۔۔انکا نام۔۔۔
طاہر علوی ہے۔۔۔۔آگے بولو۔۔
اس نے پھر تیمور کی بات کاٹتے ہوئے کہا
سب کچھ پہلے سے ہی معلوم ہے تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔
اب کی بار تیمور نے اپنی خفگی ظاہر کی
تم سے جو پوچھا ہے وہ بتاؤ۔۔۔
اسکی بھاری سخت آواز پر تیمور گڑبڑاگیا
وہ۔۔۔جی سر ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ طاہر علوی شہر کے کافی جانے مانے شریف بزنس مین ہیں۔۔۔مگر یہ شرافت کا لبادہ اوڑھے اندر سے کسی حیوان سے کم نہیں ہے۔۔۔کیونکہ اس آدمی نے کئی لڑکیوں کو اغواء کروا کر باہر ملک میں سپلائی کروایا ہے۔۔۔سمجھے بزنس کی آڑ میں اسکا اصل کام یہی ہے۔۔
بولتے بولتے تیمور کے لہجے میں ناگواری چھائی تھی اس حیوان کی وجہ سے
اسکا فیملی بیک گراؤنڈ؟
اس شخص نے پیر پر پیر رکھے پوچھا
سر فیملی بیک گراؤنڈ زیادہ بڑا نہیں ہے اسکا۔۔۔بس ایک بیٹی ہے۔۔۔بیوی نہیں ہے۔۔۔کہتے ہیں جس طرح جادوگر کی جان طوطے میں ہوتی ہے۔۔۔اسی طرح اس آدمی کی جان اپنی بیٹی میں ہے۔۔۔لوگوں سے سنا ہے کہ اسکی بیٹی بہت بھولی اور نیک سیرت لڑکی ہے۔۔۔۔پر سر ہماری انکوائری کہتی ہے کہ یہ بھولی دکھنے والی لڑکی اندر سے بہت شاطر ہے کیونکہ۔۔اس آدمی نے اپنے آدھے سے زیادہ راز اپنی بیٹی کو بتائیں ہیں۔۔۔جیسا کہ پیسے کہاں کہاں رکھتا ہے۔۔۔مال سپلائی کب ہوتا ہے۔۔اور ایک لوکر ہے جس میں یہ اپنی ذاتی چیزیں رکھتا ہے۔۔۔وہ لوکر کہاں ہے یہ تو کسی کو نہیں پتا پر ہوسکتا ہے کہ اسکے بارے میں بھی اس نے اپنی بیٹی کو ضرور بتایا ہو۔۔۔
تیمور نے اب سنجیدگی سے اسے پوری تفصیل سمیت بات بتائی
نام کیا ہے۔۔۔
پیروں کو مسلسل ہلاتے ہوئے اس شخص نے پھر پوچھا
کس کا سر؟
تیمور نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
اسکی بیٹی کا؟
اسکی بےزار آواز پر تیمور نے دانتوں تلے زبان دبائی شاید وہ پراسرار شخص سوال ریپیٹ کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔
سر۔۔۔کیا تھا۔۔۔ہاں 
نتاشہ!! یہی نام ہے اسکی بیٹی کا۔۔۔
تیمور نے یاد آجانے پر اچانک چٹکی بجا کر کہا
نظر رکھو اس لڑکی پر۔۔۔ایک ایک رپورٹ چاہیے مجھے۔۔۔سنا تم نے۔۔۔
اس نے سرخ نظروں سے تیمور کو دیکھتے ہوئے پوچھا
سر کیوں نا اغواء کر لیں اس لڑکی کو۔۔۔
تیمور نے اپنا خیال پیش کیا جس پر اسکے ہلتے پیر رکے
نہیں ابھی نہیں۔۔۔
گہری سوچ میں کھوتے ہوئے اس نے آہستگی سے کہا
اوکے سر۔۔۔میں پھر چلتا ہوں ابھی سے اپنا کام شروع کرنے۔۔۔اور تم لوگ بھی۔۔۔میں نہیں ہوں تو کام چوری نہیں کرنا۔۔
تیمور نے اس شخص کو پرجوش لہجے میں کہہ کر افسران سے کہا اور باہر کی طرف چل دیا۔
نتاشہ!
تیمور کے جانے کے بعد اس شخص کے لب آہستہ سے پھڑپھڑائے۔۔۔۔ہونٹوں پر پھر زہریلی مسکراہٹ پھیلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح تقریباً آٹھ بجے کا وقت تھا۔۔۔گاڑیوں کے ہلکے پھلکے شور کے دوران روڈ کے بیچوں بیچ ایک خوبصورت کیفے بنا تھا جہاں پر وہ ابھی موبائل میں کچھ دیکھتے ہوئے صبح کی کافی پی رہی تھی۔۔۔سادہ سے لونگ سکرٹ پر گلے میں مفلر فولڈ کیے وہ حسین لڑکی سادگی میں بھی ہر کسی کی توجہ اپنی طرف کیے بےنیاز بیٹھی تھی۔۔۔۔وہ اکثر اس جگہ پر آتی تھی۔۔۔جو اسکے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔۔۔۔ابھی اس نے چند ہی سِپ لیے تھے کہ وہ آگیا۔
ہائے۔۔۔
زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے وہ مسکراکر عادتاً اسے ہائے بولتا ہوا اسی کے سامنے والی چئیر پر بیٹھا
نتاشہ نے کوفت سے آنکھیں بند کر کے کھولیں
آپ پھر آگئے۔۔۔
اس نے بےزاری سے کہا
اب جہاں آپ وہاں ہم نہیں ایسا ہوسکتا ہے۔۔۔
اسکے فلمی ڈائلاگ بولنے پر نتاشہ نے اپنی آنکھیں گھمائیں
دیکھیے ادیان! آپ کوئی ٹین ایجر نہیں ہیں آپ بڑے ہیں یہ سب سوٹ نہیں کرتا آپ پر۔۔۔
وہ اسے رسانیت سے سمجھانے لگی۔۔۔۔پچھلے تین مہینے سے یہ ادیان نامی آدمی اسکے پیچھے پڑا تھا۔۔اور تب سے اب تک وہ صرف اسے ایک ہی آفر کررہا تھا۔۔۔شادی کی۔۔۔نتاشہ شروع میں اسے اگنور کرتی رہی پر وہ پھر بھی جب پیچھے نہ ہٹا تو وہ تنگ آنے لگی اس سے۔۔۔
تو کیا سوٹ کرتا ہے مجھ پر۔۔۔آپ ہی بتادیں۔۔۔
وہ تھوڑی کو ہتھیلی کے نیچے ٹکاتے ہوئے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔نتاشہ کا منہ بن گیا اسکی اس حرکت پر
لِسن نتاشہ۔۔۔میں تمہیں کسی مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا۔۔۔تبھی تمیز سے آکر روز یہ بات پوچھتا ہوں۔۔۔ناکہ تمہیں بدنام کرنے کے لیے اور لوفر عاشقوں کی طرح تمہارے گھر کے باہر کھڑا ہوا ہوں۔۔
وہ دھیمے لہجے میں اسے سمجھارہا تھا۔۔۔نیہا کو اسکی یہ بات کہی نہ کہی صحیح لگی۔کیونکہ ان تین مہینوں میں آج تک ادیان نے کوئی ایسی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی تھی اسکے ساتھ۔۔۔جسکی وجہ سے اسکی امیج نتاشہ کے سامنے خراب ہو۔۔۔
مجھے جانا ہے۔۔۔لیٹ ہوگئی ہوں کلاسس کے لیے۔۔
جب نتاشہ کو کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ جھنجھلا کر اٹھی تھی پھر ویٹر کو بِل پے کر کے وہاں سے چل دی۔ادیان نے چئیر پر بیٹھے ہی گردن گھوما کر اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا۔۔اسکے چہرے پر خودبخود مسکراہٹ پھیلی۔۔۔دور کھڑے تیمور نے ان دونوں کی پِک کیپچر کی۔
چلو پِکس تو کلئیر آئی ہیں۔۔۔اب یہ دکھاؤں گا سر۔۔۔نہیں۔۔۔۔
مسٹر "Z" کو۔۔
وہ مسکراتے ہوئے تصیح کرنے لگا پھر رکا
پر یہ آدمی کون ہے؟چلو پہلے سر سے پوچھوں گا پھر اسکی بھی انکوائری کرونگا۔۔۔
وہ کچھ سوچتے ہوئے بالا پھر وہاں سے چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🖤🖤🖤🖤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments